افغانستان میں مویشی پالن اور زرعی پیداوار کی اہمیت
افغانستان میں لوگوں کی اکثریت زراعت سے آمدنی حاصل کرتی ہے۔ زراعت افغانستان کی معیشت کے اہم شعبوں میں سے ایک ہے اور ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے منسلک ہے۔ زراعت چھوٹے پیمانے پر خاندانی کھیتی باڑی کے ذریعے زرعی زراعت اور تجارتی کھیتی کی سرگرمیوں کی شکل میں کی جاتی ہے۔ افغانستان میں لائیو سٹاک فارمنگ بھی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مویشی، بھیڑ، بکری اور اونٹ جیسے جانور پالے جاتے ہیں اور گوشت، دودھ، اون اور چمڑے جیسی مصنوعات فراہم کی جاتی ہیں۔ مویشی کاشتکاری مقامی لوگوں کے لیے خاص طور پر دیہی علاقوں میں آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ افغانستان میں صنعتی شعبہ نسبتاً کم کردار ادا کرتا ہے۔ صنعتی پیداوار عام طور پر کم پیمانہ اور دستی محنت پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ فوڈ پروسیسنگ، ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، لکڑی، کان کنی اور تعمیرات جیسے شعبوں میں کام کرتا ہے ۔ تاہم، اگرچہ زراعت اور مویشی پالن لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہیں، صنعتی شعبے کا حصہ زیادہ محدود ہے۔
افغانستان کی معیشت زیادہ تر زراعت پر مبنی ہے۔ ملک کی زمینوں میں زراعت کے لیے موزوں موسمی حالات ہیں۔ اہم زرعی مصنوعات گندم، مکئی، چاول، جو، کپاس، گنا، انگور، پھل اور سبزیاں ہیں۔ مزید برآں، افغانستان بھنگ پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ زراعت افغانستان میں روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور ملک کی غذائی تحفظ کے لیے اہم ہے۔ افغانستان ایک زرعی ملک ہے جہاں مویشیوں کی افزائش کی اعلیٰ صلاحیت ہے۔ کچھ اعدادوشمار کے مطابق اس میں تقریباً چالیس لاکھ گائیں اور تقریباً بیس ملین بکریاں اور بھیڑیں ہیں۔ افغانستان اپنی ڈیری مصنوعات کا تقریباً 60 فیصد مقامی طور پر پیدا کرتا ہے۔ FAO کے مطابق 2019 میں افغانستان کے پاس 170,000 اونٹ - 5,600,000 گائیں - 7,900,000 بکریاں اور 10.6 ملین بھیڑیں تھیں۔
افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو لائیو سٹاک کے شعبے میں بھی کام کرتا ہے۔ مویشی، بھیڑ، بکری اور اونٹ جیسے جانور پالے جاتے ہیں۔ مویشی کاشتکاری گوشت، دودھ، اون اور چمڑے جیسی مصنوعات فراہم کرنے کے لیے اہم ہے۔ مویشی کاشتکاری مقامی لوگوں کے لیے خاص طور پر دیہی علاقوں میں آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تعمیراتی صنعت نے حالیہ برسوں میں افغانستان میں نمایاں ترقی کا تجربہ کیا ہے۔ ملک کی تنظیم نو اور بنیادی ڈھانچے کی ضروریات نے تعمیراتی شعبے کی مانگ میں اضافہ کیا ہے۔ سڑکوں کی تعمیر، پلوں، ڈیموں، توانائی کے منصوبوں اور مکانات کی تعمیر جیسے شعبوں میں بڑے پیمانے پر منصوبے کیے گئے ہیں۔ افغانستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں بھی ترقی کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ حالیہ برسوں میں، موبائل فون کی رسائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور انٹرنیٹ تک رسائی وسیع ہو گئی ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر کی ترقی اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کی بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ اس شعبے میں ترقی دیکھی گئی ہے۔
سیاحت کا شعبہ بھی افغانستان کے ممکنہ ترقی کے شعبوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی تاریخی اور ثقافتی دولت، قدرتی خوبصورتی اور سیاحتی مقامات سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ تاہم سیکورٹی کے مسائل اور عدم استحکام کی وجہ سے سیاحت کے شعبے نے ابھی تک اپنی ترقی کی صلاحیت کو پوری طرح محسوس نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں کان کنی کے شعبے میں بھی ترقی کی صلاحیت موجود ہے۔ ملک کے بھرپور قدرتی وسائل کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، کان کنی کی صنعت کو سیکورٹی کے مسائل، بدعنوانی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
بین الاقوامی معیار کی سرگرمی کی درجہ بندی کے مطابق، صنعت میں بارودی سرنگیں، مشینری کی صنعتیں، بجلی، گیس، پانی اور تعمیرات شامل ہیں۔ اس شعبے کی اضافی مالیت 1 سال میں 4 ارب افغانوں تک پہنچ گئی۔ جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ 1.4 فیصد تھا، اور اس کی نمو -4.1 فیصد تھی۔ اس شعبے کے سکڑنے میں سب سے بڑا حصہ معدنیات کی کمی اور نکالنا ہے۔ افغانستان کی زراعت، لائیو سٹاک اور صنعتی شعبوں میں ملک کی اقتصادی ترقی اور پائیداری کے لیے نمایاں صلاحیت موجود ہے۔ تاہم، خانہ جنگی، سلامتی کے مسائل، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور ناکافی سرمایہ کاری جیسے چیلنجز ان شعبوں کو اپنی پوری صلاحیت تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ افغان حکومت اور عالمی برادری زراعت، لائیو سٹاک اور صنعتی شعبوں کی ترقی کے لیے مختلف منصوبے اور معاونت پیش کرتی ہے۔
افغانستان کا صنعتی شعبہ ملکی معیشت میں چھوٹا کردار ادا کرتا ہے۔ صنعتی پیداوار عام طور پر کم پیمانہ اور دستی محنت پر مشتمل ہوتی ہے۔ صنعت کے اہم ترین شعبوں میں فوڈ پروسیسنگ، ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، لکڑی، کان کنی اور تعمیرات شامل ہیں۔ افغانستان اپنے قدرتی وسائل کی ترقی اور صنعت کے تنوع کے ذریعے اپنے صنعتی شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف کوششیں کر رہا ہے۔ افغان دستکاریوں میں قالین کی بُنائی، ہاتھ سے بنے ہوئے قالین، قالین، فیلٹ اور موٹے ڈھیلے ڈھالے بنے ہوئے اونی کپڑے کی بنائی شامل ہیں جو ملک میں پائی جاتی ہیں۔ افغانستان سالانہ تقریباً 2.5 ملین مربع میٹر قالین برآمد کرتا ہے۔
-
افغانستان میں قدرتی وسائل کی بڑی مقدار موجود ہے، جن میں قدرتی گیس، تیل، کوئلہ، سونا، اور دیگر قیمتی معدنیات شامل ہیں۔ 2006 کے ایک سروے کے مطابق، ملک میں 36 ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس اور 3. 6 بلین بیرل تیل کے ذخائر ہیں۔ ماہرین ارضیات نے قیمتی پتھروں کے وافر ذخائر کا بھی انکشاف کیا ہے۔ افغانستان کی کان کنی کا شعبہ روشن مستقبل کی امید رکھتا ہے، خاص طور پر چینی سرمایہ کاری کے ساتھ تانبے کی کانوں میں۔ عینک تانبے کی کان دنیا کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہے اور اس سے 20,000 افغانوں کو روزگار ملنے کی توقع ہے۔ دیگر اہم معدنیات میں لوہا، سونا، لیتھیم اور کرومیم شامل ہیں۔ تاہم، سیکیورٹی مسائل اور بنیادی ڈھانچے کی کمی جیسے چیلنجز نے ان وسائل کی مکمل ترقی کو روکا ہوا ہے۔ حالیہ معاہدات جیسے بلخاب میں تانبے اور بدخشاں میں سونے کی کان کنی کے لیے سرمایہ کاری نے امیدیں بڑھائی ہیں کہ افغانستان اپنے معدنی وسائل کو بہتر طور پر استعمال کر سکے گا۔
-
افغانستان میں نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں کئی چیلنجز ہیں، جن میں سیکیورٹی مسائل اور مالی حدود شامل ہیں۔ سڑکیں ملک کی اہم نقل و حمل کی شکل ہیں، خاص طور پر کابل-قندھار اور ہرات-مزار شریف جیسی اہم شاہراہیں۔ ریلوے نیٹ ورک محدود ہے، جبکہ فضائی نقل و حمل میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ افغانستان کی درآمدات میں ٹیکسٹائل، پیٹرولیم مصنوعات اور مشینری شامل ہیں، جو بنیادی طور پر روس، امریکہ اور پاکستان سے آتی ہیں۔ 2008 میں افغانستان کی درآمدات 8. 27 بلین ڈالر تھیں۔ ایران سے برآمد ہونے والی اشیاء میں پیٹرولیم، لوہے، طبی سامان اور مختلف خوردنی اشیاء شامل ہیں۔ افغانستان کے تجارتی شراکت داروں میں پاکستان اور بھارت نمایاں ہیں، جو افغان برآمدات کا بڑا حصہ حاصل کرتے ہیں۔
-
ایران اور افغانستان کے درمیان جغرافیائی قربت نے تجارت کو آسان بنایا ہے۔ دونوں ممالک کے تجارتی معاہدے دو طرفہ تجارت کو فروغ دیتے ہیں، جس سے کسٹم ڈیوٹی میں کمی اور سرمایہ کاری کی ترغیبات ملتی ہیں۔ ایران افغانستان کو توانائی، ایندھن، تعمیراتی سامان، الیکٹرانکس اور خوراک کی اشیاء فراہم کرتا ہے۔ ایرانی اشیاء کی اعلیٰ معیار اور پاکستانی سڑکوں کی غیر محفوظ حالت نے ایران کی برآمدات میں اضافہ کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں افغانستان کو ایران سے برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو کہ ایک ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہیں۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 10 بلین ڈالر تک بھی جا سکتی ہے۔ ایران کی برآمدات میں تنوع نے اسے افغان مارکیٹ میں مسابقتی فائدہ دیا ہے۔ حالیہ معاہدے جیسے چابہار بندرگاہ کے ذریعے زمینی تجارت کو فروغ دیا گیا ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی رکاوٹیں کم ہوئی ہیں۔ افغانستان کو بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے کے لیے مزید مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر یورپی ممالک اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ۔
-
افغانستان کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت اور مویشی پالن پر منحصر ہے۔ زراعت میں چھوٹے پیمانے پر خاندانی کھیتی باڑی اور تجارتی سرگرمیاں شامل ہیں۔ مویشیوں کی افزائش، جیسے کہ بھیڑ، بکری، اور اونٹ، مقامی لوگوں کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔ افغانستان میں تقریباً 40 لاکھ گائیں اور 20 ملین بکریاں موجود ہیں۔ صنعتی شعبہ کمزور ہے، مگر تعمیرات اور ٹیلی کمیونیکیشن میں ترقی کی گنجائش موجود ہے۔ زراعت کے اہم مصنوعات میں گندم، مکئی، چاول، اور پھل شامل ہیں۔ افغانستان دنیا کے بڑے بھنگ پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ اگرچہ زراعت اور مویشی پالن معیشت کے اہم ستون ہیں، مگر سیکورٹی مسائل اور بنیادی ڈھانچے کی کمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ افغان حکومت نے مختلف منصوبوں کے ذریعے ان شعبوں کی ترقی کے لیے کوششیں شروع کی ہیں۔
-
افغانستان کی تجارتی معیشت آزاد منڈی پر مبنی ہے، جہاں تجارت نجی شعبے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ ملک بین الاقوامی تجارتی قوانین کی پابندی کرتا ہے اور مختلف علاقائی تجارتی معاہدوں میں شامل ہے۔ افغانستان میں کاروبار کرنے کے لیے مخصوص لائسنس اور اجازت ناموں کی ضرورت ہوتی ہے، جنہیں متعلقہ حکام جاری کرتے ہیں۔ کسٹم ڈیوٹی اور دیگر تجارتی رکاوٹیں بھی موجود ہیں جو درآمدات اور برآمدات کو متاثر کرتی ہیں۔ افغانستان کے اہم تجارتی شعبوں میں زرعی مصنوعات، قیمتی پتھر، معدنیات، ٹیکسٹائل، اور تعمیراتی سامان شامل ہیں۔ موثر لاجسٹک انفراسٹرکچر جیسے بندرگاہیں اور سڑکیں تجارت کی سہولت کے لیے اہم ہیں۔ افغانستان نے اپنے تجارتی قوانین کو جدید بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں نئے قوانین کا نفاذ شامل ہے۔
-
افغانستان میں بارودی سرنگوں کی کل مالیت 1. 5 ٹریلین ڈالر ہے، جس میں کان کنی کا شعبہ جی ڈی پی میں 6. 6 فیصد کا حصہ رکھتا ہے۔ ملک میں سونے، گہرے نیلے، زمرد اور دیگر قیمتی معدنیات کی بھرپور کانیں موجود ہیں۔ اگرچہ نیٹو ممالک نے افغانستان کے معدنی وسائل کو لوٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھا، لیکن افغان حکومت کو ان وسائل کے مؤثر انتظام کی ضرورت ہے۔ سیکورٹی مسائل اور سیاسی عدم استحکام نے قدرتی وسائل کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ غیر قانونی کان کنی اور بدعنوانی بھی اہم چیلنجز ہیں۔ افغانستان کے پاس مختلف معدنیات جیسے تیل، کوئلہ، گیس، لوہا اور سونا موجود ہیں، جن کی ابھی تک مکمل طور پر کان کنی نہیں ہوئی۔ بنیادی ڈھانچے کی کمی اور اہل افرادی قوت کی عدم دستیابی بھی مسائل پیدا کرتی ہیں۔ اگر افغان حکومت قانونی ضوابط کو مضبوط کرے اور بین الاقوامی بہترین طریقوں پر عمل کرے تو یہ ملک اپنے قدرتی وسائل سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔